تین مئی یوم صحافت۔۔


  مئ یوم صحافت۔۔۔۔۔۔تین 



تحریر شہزادحسن۔۔۔( جرنلسٹ) فیصل آباد۔تین مئی ہر سال یوم صحافت کے نام سے منایا جاتا ہے ۔پاکستان میں کہنے کو تو جمہوری نظام ہے۔ لیکن اس جمہوریت میں آزادی رائے اور صحافت کو آزادی رائے کا حق بالکل نہیں ہے۔ کہنے اور لکھنے میں صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے۔ اس چوتھے ستون کی بنیادیں ملک میں مسلط وڈیرے جگیرداروں اور ان سیاسی آقاؤں  کی مرہون منت ہے۔ صحافت ایک مقدس پیشہ ہے۔ لیکن موجودہ دور میں صحافت کو چند  بلیک میل عناصر کی وجہ سے آج صحافت وہ آہمیت اور مقام حاصل نہیں کر سکی۔ جو مقدس صحافت کا مقام ہونا چاہیے تھا۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے۔ جہاں صحافی بالکل غیر محفوظ ہیں۔ خبر کے زیر آشاعت ہونے کے بعد ایک صحافی کی جان کو کتنے خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ یہ ایک صحافی ہی جانتا ہے۔ صحافت میں جو ایک صحافی کا معیار اور مقام ہونا چاہیے تھا۔ آفسوس وہ آج تک نہ مل سکا ۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔ کہ چند صحافی صرف صحافت کے لبادے میں چھپے ہوئے بلیک میلر ہے۔ صحافت کے نام پر ایک سیاہ دھبہ ہے ۔موجودہ ملکی حالات میں بھی صحافیوں کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ بلکہ کچھ نامور صحافی تو باقاعدہ سیاسی جماعتوں کی سہولت کاری کرتے ہوئے باقاعدہ دکھائی دیتے ہیں۔ حقیقت اور اصل حقائق کو نظر آنداز کرتے ہوئے بس آپنے سیاسی آقاؤں  کو خوش دیکھنا اور خوش رکھنا چاہتے ہیں۔ ملک میں موجودہ صحافتی تنظیمیں بھی آپنے من پسند سیاسی آقاؤں  کو ہر وقت خوش کرنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں ۔ایک عام صحافی کا آج بھی کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ تمام بڑے آخبارات اور چینلز کے میڈیا مالکان آپنے سیاسی آقاؤں  سے  کروڑوں کے آشتہارات لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ سرکاری آشتہارات بھی ان کو دیے جاتے ہیں۔ 3  مئی یوم صحافت کا دن تو ہر سال منایا جاتا ہے۔ لیکن یوم صحافت کے حوالے سے آج تک نہ تو حکومت نے کوئی مثبت  دوست پولیسی واضح کی ہے۔  اور نہ ہی آج تک کوئی آہمیت دی ہے۔ بلکہ اب تو حکومت نے باقاعدہ پیکا ایکٹ قانون بھی اسمبلی سے پاس کروا لیا ہے۔ جس سے صحافت اور بھی کانٹوں کی سیج بن گئی ہے۔ پیکا ایکٹ قانون پاس کر کے حکومت نے صحافت کی آزادی رائے کو اب مکمل طور پر یرغمال بنا لیا ہے۔ اس پیکا ایکٹ قانون کے حوالے سے ابھی تک کسی بھی صحافی تنظیم نے عملی طور پر کچھ نہیں کیا ۔ حکومت کو چاہیے کہ جہاں دن رات آپنے آقتدار کی کرسی کی خاطر سوچتے ہیں۔  اسی طرح کچھ فرصت نکال کر ریاست کے چوتھے کو یعنی آزادی صحافت پر بھی کوئی مثبت دوست پولیسی پر نظر ثانی فرمائیں ۔ اگر یہ ایوان میں بیٹھے حکمران چاہیں تو صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لیے بھی کوئی مثبت نکال سکتے ہیں۔  تاکہ صحافت کو مثبت اور موثر آنداز سے بہتر بنایا جا سکے۔ لیکن آفسوس جہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے ۔ جو صحافی حق سچ کی آواز کو بلند کرتا ہے۔ یہاں اس کی آواز کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہی بند کر دیا جاتا ہے۔ 3 مئی یوم صحافت کی بجائے یہ دن یوم منافقت اور یوم نجات کے طور پر ہی منایا جاتا ہے۔ اور منایا جاتا رہے گا۔ 3 مئی یوم صحافت کے موقع پر ہمیشہ آپنے قلم سے  حق سچ لکھنے والے قلم کے تقدس کو بحال کرنے والوں کے علاوہ سوائے ضمیر فروش' قلم فروش ' اور زرد صحافت ناجائز کاروبار کو تحفظ دینے والے چند نام نہاد لوگوں کے علاوہ میں باقی صحافیوں کو تہ دل سے سلام پیش کرتا ہوں۔ آئیں آج کے دن  ہم سب صحافی برادری مل کر اس عزم کا عہد کریں۔ کہ ہم آپنے قلم سے ملک و قوم اور علاقائی وسیع تر مفاد اور قلم کے تقدس کو ہر آچھے اور برے وقت میں بحال رکھیں گے۔ حق و صداقت لکھنے سے کبھی گریز نہیں کریں گے ۔چاہے آس کے لیے ہمیں آپنی جانوں کا نظرانہ ہی کیوں نہ دینا پڑے۔ 3 مئی یوم صحافت کے دن ہم یہ عہد کرتے ہیں۔ کہ ہم آپنی صحافتی ذمہ داری کو زندگی کی آخری سانسوں تک احسن طریقے سے سر آنجام دیں گے۔ انشاءاللہ

Post a Comment

Previous Post Next Post