"خاموش دیواروں کی پکار"۔
(تحریر: افشاں چوہدری)
فیصل آباد پریس کلب جو صحافت کی آزادی، عزت اور وقار کی علامت سمجھا جاتا ہے آج شرمندگی اور افسوس کی علامت بن چکا ہے ۔ ایک ایسے ادارے کے اندر جہاں قلم کے سپاہی حق اور انصاف کی جنگ لڑتے ہیں وہاں ایک خاتون صحافی کے ساتھ ہراسانی کا واقعہ ہونا صرف فردِ واحد کی توہین نہیں بلکہ پورے صحافتی معاشرے کے ضمیر پر کاری ضرب ہے ۔خاتون صحافی رفعت رانا جو خود اسی ادارے کی ایگزیکٹو ممبر ہیں ، کے ساتھ روا رکھا گیا سلوک اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے ادارے جنہیں تحفظ کی پناہ گاہ ہونا چاہیے تھا اب عدم تحفظ کا گڑھ بنتے جا رہے ہیں ۔ جب خبر بنانے والے ہی خبر بن جائیں تو سمجھ لیجیے کہ معاشرتی بگاڑ اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے ۔ یہ واقعہ صرف ایک فرد کے ساتھ زیادتی نہیں بلکہ اس سوچ کی نمائندگی کرتا ہے جو عورت کو ہر میدان میں کمزور سمجھتی ہے ۔ چاہے وہ سیاست ہو، تعلیم ہو یا صحافت ۔ المیہ یہ ہے کہ وہ ادارے جو عوام کے مسائل اجاگر کرتے ہیں اپنے اندر کے مسائل پر آنکھ بند کر لیتے ہیں ۔ فیصل آباد پریس کلب کا یہ سانحہ اسی منافقانہ دوہرے معیار کی واضح مثال ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس واقعے کی مکمل، شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائیں ۔ اگر واقعی پریس کلب کے ارکان اس شرمناک عمل میں ملوث پائے جائیں تو ان کے خلاف سخت ترین تادیبی کارروائی ہونی چاہیے تاکہ آئندہ کوئی بھی شخص اپنی طاقت، عہدے یا تعلقات کے زعم میں کسی کی عزت پامال کرنے کی جرات نہ کرے ۔ خواتین صحافیوں کے لیے محفوظ ماحول فراہم کرنا محض اخلاقی ذمہ داری نہیں بلکہ پیشہ ورانہ وقار کا بنیادی تقاضا ہے ۔ جو معاشرہ اپنے قلمکاروں اور اپنی بیٹیوں کی عزت کا محافظ نہ بن سکے وہ کبھی کسی سچائی کی جنگ نہیں جیت سکتا ۔ میڈیا برادری کو اب خاموش تماشائی بننے کے بجائے متحد ہو کر انصاف کی آواز بننا ہوگا ۔ کیونکہ اگر آج ہم نے اپنے ضمیر کو خاموش رکھا تو کل ہماری بیٹیوں کی آوازیں دیواروں سے ٹکرا کر رہ جائیں گی اور وہ دیواریں ہمیشہ اسی طرح خاموش رہیں گی ۔ میں وزیرِاعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف سے پُرزور مطالبہ کرتی ہوں کہ وہ اس افسوسناک واقعے کا فوری نوٹس لیں خاتون صحافی کو انصاف فراہم کرنے کے لیے اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی تشکیل دیں اور یہ واضح پیغام دیں کہ پنجاب میں خواتین صحافیوں کی عزت و وقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا ۔
